ٹھہرے پانی میں نہاں ایک حسیں خواب بھی ہے
اور اسی جھیل میں عکس رخ مہتاب بھی ہے
دشت تنہائی کے تپتے ہوئے ویرانے میں
تیری یادوں کا ہے اک پیڑ جو شاداب بھی ہے
پار کرنا بڑا مشکل ہے کہ یہ بحر ہوس
کہیں گہرا ہے بہت اور کہیں پایاب بھی ہے
اس کی تصویر میں آنکھوں میں بسا لوں کہ یہ شے
لاکھ ارزاں سہی میرے لئے نایاب بھی ہے
یوں تو لگتا ہے سمندر بڑا خاموش مگر
اس کے سینے میں نہاں کرب کا سیلاب بھی ہے
یہ تمناؤں کی سوکھی ہوئی ندی اخترؔ
اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے اک خواب بھی ہے
غزل
ٹھہرے پانی میں نہاں ایک حسیں خواب بھی ہے
احتشام اختر