ٹھہرنا بھول گئی ہیں لہو سے تر آنکھیں
بھٹکتی رہتی ہیں دن رات در بہ در آنکھیں
وجود میرا کہیں کھو نہ جائے بن تیرے
رہیں گی یوں ہی ترے ساتھ عمر بھر آنکھیں
تم اپنی آنکھوں کو نظارۂ جہاں بخشو
مری تو گھومتی رہتی ہیں ریت پر آنکھیں
طلسم خانۂ حیرت ہے ایک پتلی میں
دکھاتی ہیں مجھے کیا کیا یہ مختصر آنکھیں
تمہارے وعدے پہ ایسا یقین ہے دل کو
کبھی ہیں در پہ کبھی وقف رہ گزر آنکھیں
تری نظر کے تعاقب میں ہے نظر میری
تری نظر ہے جدھر ہیں مری ادھر آنکھیں
یہ خد و خال یہ گیسو یہ صورت زیبا
سبھی کا حسن ہے اپنی جگہ مگر آنکھیں
غزل
ٹھہرنا بھول گئی ہیں لہو سے تر آنکھیں
خان رضوان