تھا پہلا سفر اس کی رفاقت بھی نئی تھی
رستے بھی کٹھن اور مسافت بھی نئی تھی
دل تھا کہ کسی طور بھی قابو میں نہیں تھا
رہ رہ کے دھڑکنے کی علامت بھی نئی تھی
جب اس نے کہا تھا کہ مجھے عشق ہے تم سے
آنکھوں میں جو آئی تھی وہ حیرت بھی نئی تھی
صدیوں کے تعلق کا گماں ہونے لگا تھا
جب کہ مری اس شخص سے نسبت بھی نئی تھی
واقف بھی نہیں تھا میں کسی سود و زیاں سے
اس عشق کے سودے میں شراکت بھی نئی تھی
خوابوں کے بکھر جانے کا دھڑکا بھی لگا تھا
بیدارئ شب کی مجھے عادت بھی نئی تھی
تعبیر کہاں ڈھونڈنے جاتیں مری آنکھیں
ان کو تو کسی خواب کی زحمت بھی نئی تھی
دل واقف آداب محبت بھی نہیں تھا
دنیا کے رواجوں سے بغاوت بھی نئی تھی
پھر میں کہ کسی نشے کا عادی بھی نہیں تھا
اور میرے لیے وصل کی لذت بھی نئی تھی
یوں کار جنوں کرنا خرد مندوں میں رہ کر
جو ڈالی تھی تم نے وہ روایت بھی نئی تھی
غزل
تھا پہلا سفر اس کی رفاقت بھی نئی تھی
فرحت ندیم ہمایوں