تھا مجھ سے ہم کلام مگر دیکھنے میں تھا
جانے وہ کس خیال میں تھا کس سمے میں تھا
کیسے مکاں اجاڑ ہوا کس سے پوچھتے
چولھے میں روشنی تھی نہ پانی گھڑے میں تھا
تا صبح برگ و شاخ و شجر جھومتے رہے
کل شب بلا کا سوز ہوا کے گلے میں تھا
نیندوں میں پھر رہا ہوں اسے ڈھونڈھتا ہوا
شامل جو ایک خواب مرے رتجگے میں تھا
غزل
تھا مجھ سے ہم کلام مگر دیکھنے میں تھا
احمد مشتاق