EN हिंदी
تھا میں آخر اسی موسم کی فضا میں پہلے | شیح شیری
tha main aaKHir usi mausam ki faza mein pahle

غزل

تھا میں آخر اسی موسم کی فضا میں پہلے

محشر بدایونی

;

تھا میں آخر اسی موسم کی فضا میں پہلے
اس قدر سوز نہ تھا میری نوا میں پہلے

ہے اگر اس کی یہ حسرت کہ اسے سب دیکھیں
شاہد چرخ ہو روپوش گھٹا میں پہلے

خاک پوشوں کے بدن دیر میں لو دیتے ہیں
آگ لگتی ہے کسی نرم قبا میں پہلے

ہونٹ سینا بھی ہے اب فرض چلو یہ بھی سہی
ایسی شرطیں نہ تھیں آداب وفا میں پہلے

اہل فن اس کو نہ بھولیں کہ دل و جاں کی تپش
حرف میں بعد کو آتی ہے صدا میں پہلے

میرے عرصہ گہہ تقدیر میں آنے والو
دن گزارو کسی آشوب سرا میں پہلے

میرے صحرا میں تم آئے تو ہو نازک نفسو
سانس بھی لی ہے کبھی ایسی ہوا میں پہلے