EN हिंदी
تھا آسمان پر جو ستارہ نہیں رہا | شیح شیری
tha aasman par jo sitara nahin raha

غزل

تھا آسمان پر جو ستارہ نہیں رہا

حسن عابد

;

تھا آسمان پر جو ستارہ نہیں رہا
یادش بخیر اب وہ ہمارا نہیں رہا

جو دن گزر گئے وہ گزر ہی گئے سو اب
یادوں کے ماسوا کوئی چارہ نہیں رہا

سیل رواں میں گم ہے نشان محیط آب
اے موج مضطرب وہ کنارا نہیں رہا

تنہا تھے جب تو آنکھ کے آنسو بھی دل میں تھے
وہ آ گیا تو ضبط کا یارا نہیں رہا