تھا آسمان پر جو ستارہ نہیں رہا
یادش بخیر اب وہ ہمارا نہیں رہا
جو دن گزر گئے وہ گزر ہی گئے سو اب
یادوں کے ماسوا کوئی چارہ نہیں رہا
سیل رواں میں گم ہے نشان محیط آب
اے موج مضطرب وہ کنارا نہیں رہا
تنہا تھے جب تو آنکھ کے آنسو بھی دل میں تھے
وہ آ گیا تو ضبط کا یارا نہیں رہا

غزل
تھا آسمان پر جو ستارہ نہیں رہا
حسن عابد