EN हिंदी
تیز مجھ پر جو ستم گر کی چھری ہوتی ہے | شیح شیری
tez mujh par jo sitamgar ki chhuri hoti hai

غزل

تیز مجھ پر جو ستم گر کی چھری ہوتی ہے

ثاقب لکھنوی

;

تیز مجھ پر جو ستم گر کی چھری ہوتی ہے
کیجیے کیا کہ لگی دل کی بری ہوتی ہے

منع کرتا ہے تڑپنے سے قفس میں صیاد
نالے کرتا ہوں تو گردن پہ چھری ہوتی ہے

ہر بدی کرتی ہے انسان کو دنیا میں ہلاک
سم قاتل ہے وہ عادت جو بری ہوتی ہے

اہل دل عشق میں دم مار سکیں کیا ممکن
رگ جاں کے لئے ہر سانس چھری ہوتی ہے

بیٹھ کیوں بادہ کشوں میں کہ ہوں گم ہوش و حواس
صحبت اہل خرابات بری ہوتی ہے