EN हिंदी
تیز لہجے کی انی پر نہ اٹھا لیں یہ کہیں | شیح شیری
tez lahje ki ani par na uTha len ye kahin

غزل

تیز لہجے کی انی پر نہ اٹھا لیں یہ کہیں

طارق جامی

;

تیز لہجے کی انی پر نہ اٹھا لیں یہ کہیں
بچے نادان ہیں پتھر نہ اٹھا لیں یہ کہیں

جن جزیروں کو یہ جاتے ہیں قناعت کر لو!
سوچتے رہنے میں لنگر نہ اٹھا لیں یہ کہیں

اعتماد ان پہ کرو خدشہ ہے یہ بھی ورنہ
دست ساحل سے سمندر نہ اٹھا لیں یہ کہیں

ان کے ہاتھوں کی طنابیں ہیں زمیں پر لپٹی
شہر کی آنکھ سے منظر نہ اٹھا لیں یہ کہیں

عہد بھی ان ہی کا ہم ذہن ہے سو چپ ہی رہیں
اگلی صدیوں کے کلنڈر نہ اٹھا لیں یہ کہیں