تیری یہ زلفیں نہیں تیرے رخ روشن کے پاس
ابر کے دو ٹکڑے اٹھ کر آئے ہیں گلشن کے پاس
کیوں زمیں ہلنے لگی ہے کیوں پریشاں روح ہے
کون گھبرا کے چلا آیا مرے مدفن کے پاس
کھینچنا جذب محبت اس کا دامن دیکھ کر
سرنگوں بیٹھا نہ ہو فتنہ کوئی دامن کے پاس
پھر تو ڈھونڈا بھی نہیں ملتا کوئی مرغ چمن
گھر اگر صیاد کا ہوتا کسی گلشن کے پاس
کون دیتا ہے ہمارے دل کو یہ ترغیب نیک
رہنما بیٹھا ہوا ہے کیا کوئی رہزن کے پاس
میں تو سمجھا تھا کہ اب چھوٹا غم و آلام سے
تیغ اس کی رک گئی آ کر مری گردن کے پاس
بزم دشمن میں نیا فتنہ کوئی اٹھنے کو تھا
خیر گزری آپ آ بیٹھے قیامت بن کے پاس
شادؔ اب دل کا تمہارے ہاتھ آنا ہے محال
وہ مگن بیٹھا ہوا ہوگا کسی پر فن کے پاس
غزل
تیری یہ زلفیں نہیں تیرے رخ روشن کے پاس
مرلی دھر شاد