تیری یادوں نے تڑپایا بہت ہے
بھلے ہی دل کو سمجھایا بہت ہے
بہت زخمی کیا ہے دل کو تم نے
تمہیں کو پھر بھی اپنایا بہت ہے
کھلے رہتے ہیں زخم دل ہمیشہ
خزاں نے ظلم تو ڈھایا بہت ہے
لب جاناں جو زمزم آتشیں تھا
حواسوں پر مرے چھایا بہت ہے
لغت میں حسن کی تعریف ڈھونڈھی
مگر ہر لفظ کم مایہ بہت ہے
دل آتش کی سازش میں زمانیؔ
شب ہجراں کو گرمایا بہت ہے
غزل
تیری یادوں نے تڑپایا بہت ہے
آصفہ زمانی