EN हिंदी
تیری یادوں کے کے حسیں پل کے سوا کچھ بھی نہیں | شیح شیری
teri yaadon ke ke hasin pal ke siwa kuchh bhi nahin

غزل

تیری یادوں کے کے حسیں پل کے سوا کچھ بھی نہیں

معراج نقوی

;

تیری یادوں کے کے حسیں پل کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کشکول میں اس کل کے سوا کچھ بھی نہیں

میں ہی پاگل تھا وفا ڈھونڈ رہا تھا ان میں
تیری آنکھوں میں تو کاجل کے سوا کچھ بھی نہیں

کتنے ہی خواب مسرت کا نگر تھیں پہلے
اب تو آنکھیں مری بادل کے سوا کچھ بھی نہیں

بن کے سقراط جیو تجربہ اپنا ہے یہی
زندگی زہر ہلاہل کے سوا کچھ بھی نہیں

بڑھتی جاتی ہیں مری وحشتیں ہر دن معراجؔ
ایسا لگتا ہے میں پاگل کے سوا کچھ بھی نہیں