تیری یادیں ہیں جنہیں دل میں بسا رکھا ہے
ہم نے اس آگ کو سینے میں دبا رکھا ہے
شہر ہو دشت تمنا ہو کہ دریا کا سفر
تیری تصویر کو سینے سے لگا رکھا ہے
یہ تو ممکن ہی نہیں حسن کا فیضان نہ ہو
عشق نے حسن کو ارمان بنا رکھا ہے
کیسا سورج ہے کہ دیتا نہیں ظلمت کو شکست
کیوں اندھیروں نے اجالوں کو دبا رکھا ہے
تشنگی اپنی مٹا لے کہ ہنسے گی دنیا
پی تو لے ساغر تسلیم و رضا رکھا ہے
حق کے لشکر میں سپاہی ہیں بہت تھوڑے سے
ہم نے ہی حوصلہ باطل کا بڑھا رکھا ہے
کب نکلنا ہے اسے یہ بھی بتا سکتی ہے
ظلمت شب نے بھی سورج کا پتہ رکھا ہے
خوگر ضبط ہیں رسوا نہ کریں گے تجھ کو
ہم نے دنیا سے ترے غم کو چھپا رکھا ہے
دل جو ٹوٹے ہیں انہیں جوڑ کے دکھلاؤ شہیدؔ
ورنہ ان کشف و کرامات میں کیا رکھا ہے
غزل
تیری یادیں ہیں جنہیں دل میں بسا رکھا ہے
عزیز الرحمن شہید فتح پوری