EN हिंदी
تیری یادیں بھی نہیں غم بھی نہیں تو بھی نہیں | شیح شیری
teri yaaden bhi nahin gham bhi nahin tu bhi nahin

غزل

تیری یادیں بھی نہیں غم بھی نہیں تو بھی نہیں

یوسف تقی

;

تیری یادیں بھی نہیں غم بھی نہیں تو بھی نہیں
کتنی ویران ہے یہ آنکھ کہ آنسو بھی نہیں

میرے دل کو مرے احساس کو چھو جاتی تھی
بھیگے بھیگے ترے بالوں کی وہ خوشبو بھی نہیں

ہائے وہ پہلے پہل تیری جدائی کی گھڑی
اب تو پینے کی کوئی چاہ کوئی خو بھی نہیں

جو غم دہر کی راہوں کو حسیں تر کر دے
بہکے بہکے ترے قدموں کا وہ جادو بھی نہیں

اب گنہ گار نظر کی ہے کہاں جائے پناہ
راہ میں دور تلک کوئی پری رو بھی نہیں