تیری یاد میں روتے روتے تجھ جیسا ہو جائے گا
ہو سکتا ہے اپنا دل بھی کل پتھر کہلائے گا
اور نہیں تو ترک وفا پر یہ بھی تو ہو سکتا ہے
کچھ ہم بھی شرمندہ ہوں گے کچھ وہ بھی پچھتائے گا
تجھ کو بھلا کر جی سکتے ہیں لیکن اتنا یاد رہے
تجھ سا جو بھی مکھڑا ہوگا آنکھوں میں بس جائے گا
پیار سے نفرت کرنے والو پیار کو تم نے کیا جانا
یہ بھی ہمیشہ کا ضدی ہے تم کو بھی ہو جائے گا
تیرا میرا ساتھ رہے گا کانٹے لوگ بچھائیں گے
لیکن اپنی راہ گزر پر موسم پھول کھلائے گا
سب کا درد سمیٹ کے وہ تاثیر ہے میرے لفظوں میں
جو بھی میرے شعر پڑے گا وہ میرا ہو جائے گا
غزل
تیری یاد میں روتے روتے تجھ جیسا ہو جائے گا
سلطان سبحانی