تیری الفت میں نہ جانے کیا سے کیا ہو جاؤں گا
تو نے گر چاہا تو اک دن میں خدا ہو جاؤں گا
قتل کر کے مت سمجھنا میں فنا ہو جاؤں گا
جل کے اپنی راکھ سے پھر رونما ہو جاؤں گا
میں کسی درویش کے لب کی دعا ہو جاؤں گا
بے سہارا زندگی کا آسرا ہو جاؤں گا
رات بھر بیٹھا رہا میں تھام کر یادوں کا ہاتھ
دل کو خدشہ تھا کہ میں تجھ سے جدا ہو جاؤں گا
سامنے ٹھہرا ہوں تیرے جان لے پہچان لے
چل پڑا تو بڑھتے بڑھتے فاصلہ ہو جاؤں گا
وقت کے صحرا میں تم پاؤ گے میرے نقش پا
میں ازل سے تا ابد اک سلسلہ ہو جاؤں گا
میں سما جاؤں گا خوشبو کی طرح ہر پھول میں
پتی پتی غنچہ غنچہ رونما ہو جاؤں گا
راہ کا پتھر سہی گر تو تراشے گا مجھے
دیکھتے ہی دیکھتے میں دیوتا ہو جاؤں گا

غزل
تیری الفت میں نہ جانے کیا سے کیا ہو جاؤں گا
شعلہ ہسپانوی