EN हिंदी
تیری الفت کو جگا رکھا ہے | شیح شیری
teri ulfat ko jaga rakkha hai

غزل

تیری الفت کو جگا رکھا ہے

مشتاق انجم

;

تیری الفت کو جگا رکھا ہے
دل میں طوفان اٹھا رکھا ہے

رنج و راحت ہیں گلے شکوے ہیں
کیسا گھر بار سجا رکھا ہے

اس کا احسان کہ اس کے دل نے
فاصلہ ہم سے سدا رکھا ہے

وقت کیوں ریت سا پھسلا جائے
ہم نے مٹھی میں دبا رکھا ہے

سامنے رہتے ہوئے بھی اس نے
خود کو پردے میں چھپا رکھا ہے

شاد ہر پل ہیں کہ ہم نے دل کو
خوگر درد بنا رکھا ہے

خار ہے جس کی زباں اس نے بھی
گھر کو پھولوں سے سجا رکھا ہے

کوئی جنبش پس پردہ ہو کبھی
سر ترے در سے لگا رکھا ہے

وہ بھی کیا دل ہے کہ جس میں انجمؔ
نام رکھا نہ پتا رکھا ہے