تیری صورت کو دیکھتا ہوں میں
اس کی قدرت کو دیکھتا ہوں میں
جب ہوئی صبح آ گئے ناصح
انہیں حضرت کو دیکھتا ہوں میں
وہ مصیبت سنی نہیں جاتی
جس مصیبت کو دیکھتا ہوں میں
دیکھنے آئے ہیں جو میری نبض
ان کی صورت کو دیکھتا ہوں میں
موت مجھ کو دکھائی دیتی ہے
جب طبیعت کو دیکھتا ہوں میں
شب فرقت اٹھا اٹھا کر سر
صبح عشرت کو دیکھتا ہوں میں
دور بیٹھا ہوا سر محفل
رنگ صحبت کو دیکھتا ہوں میں
ہر مصیبت ہے بے مزا شب غم
آفت آفت کو دیکھتا ہوں میں
نہ محبت کو جانتے ہو تم
نہ مروت کو دیکھتا ہوں میں
کوئی دشمن کو یوں نہ دیکھے گا
جیسے قسمت کو دیکھتا ہوں میں
حشر میں داغؔ کوئی دوست نہیں
ساری خلقت کو دیکھتا ہوں میں
غزل
تیری صورت کو دیکھتا ہوں میں
داغؔ دہلوی