EN हिंदी
تیری صورت جو دل نشیں کی ہے | شیح شیری
teri surat jo dil-nashin ki hai

غزل

تیری صورت جو دل نشیں کی ہے

فیض احمد فیض

;

تیری صورت جو دل نشیں کی ہے
آشنا شکل ہر حسیں کی ہے

حسن سے دل لگا کے ہستی کی
ہر گھڑی ہم نے آتشیں کی ہے

صبح گل ہو کہ شام مے خانہ
مدح اس روئے نازنیں کی ہے

شیخ سے بے ہراس ملتے ہیں
ہم نے توبہ ابھی نہیں کی ہے

ذکر دوزخ بیان حور و قصور
بات گویا یہیں کہیں کی ہے

اشک تو کچھ بھی رنگ لا نہ سکے
خوں سے تر آج آستیں کی ہے

کیسے مانیں حرم کے سہل پسند
رسم جو عاشقوں کے دیں کی ہے

فیضؔ اوج خیال سے ہم نے
آسماں سندھ کی زمیں کی ہے