تیری روح میں سناٹا ہے اور مری آواز میں چپ
تو اپنے انداز میں چپ ہے میں اپنے انداز میں چپ
گاہے گاہے سانسوں کی آواز سنائی دیتی ہے
گاہے گاہے بچ اٹھتی ہے دل کے شکستہ ساز میں چپ
سناٹے کے زہر میں بجھتے لوگوں کو یہ کون بتائے
جتنا اونچا بول رہے ہیں اتنی ہے آواز میں چپ
اک مدت سے خشک پڑا ہے وہ جھرنا انگڑائی کا
جانے کس نے بھر دی ہے اس پیکر نغمہ ساز میں چپ
رگ رگ میں جب خون کی بوندیں بلبل بن کر چہک اٹھیں
پھر دل حافظؔ کیوں کر سادھے سینے کے شیراز میں چپ
غزل
تیری روح میں سناٹا ہے اور مری آواز میں چپ
عباس تابش