تیری رنگت بہار سے نکلی
پھوٹ کر لالہ زار سے نکلی
دل جو دھویا تو تو نظر آیا
کیا ہی صورت غبار سے نکلی
چھیڑ کر آزما لیا ہم نے
تیری آواز تار سے نکلی
روح میری ترے تجسس میں
جسم نا پائیدار سے نکلی
مفت برباد ہے مری حسرت
کیوں دل بے قرار سے نکلی
بہر تعظیم حشر برپا ہے
کس کی میت مزار سے نکلی
غزل
تیری رنگت بہار سے نکلی
مضطر خیرآبادی