تیری نگاہ ناز کے بسمل نہ ہوں گے ہم
ہر رنگ ہر فضا میں تو شامل نہ ہوں گے ہم
اک بے وفا سے ہم نے یہاں تک کہا کبھی
چاہے گا گر خدا بھی تو حاصل نہ ہوں گے ہم
تنقید کرنے والوں پہ ہنسنا پڑا ہمیں
مشکل وہ چاہتے ہمیں مشکل نہ ہوں گے ہم
ساحل پہ جانے والے کبھی لوٹتے نہیں
دھوکے سے بھی کبھی کوئی ساحل نہ ہوں گے ہم
ہم کو ہے عشق اس سے جو ہے جونؔ ایلیا
یعنی کہ آپ کے کوئی قابل نہ ہوں گے ہم
ہم نے تو اپنے جسم میں اک دل کو مارا ہے
کیا پھر بھی سوچتے ہو کہ قاتل نہ ہوں گے ہم
مانا شراب پیتے ہیں تو کیا ہوا میاں
یعنی کہ آپ کہتے ہیں فاضل نہ ہوں گے ہم
غزل
تیری نگاہ ناز کے بسمل نہ ہوں گے ہم
منتظر فیروز آبادی