EN हिंदी
تیری نگاہ ناز کے بسمل نہ ہوں گے ہم | شیح شیری
teri nigah-e-naz ke bismil na honge hum

غزل

تیری نگاہ ناز کے بسمل نہ ہوں گے ہم

منتظر فیروز آبادی

;

تیری نگاہ ناز کے بسمل نہ ہوں گے ہم
ہر رنگ ہر فضا میں تو شامل نہ ہوں گے ہم

اک بے وفا سے ہم نے یہاں تک کہا کبھی
چاہے گا گر خدا بھی تو حاصل نہ ہوں گے ہم

تنقید کرنے والوں پہ ہنسنا پڑا ہمیں
مشکل وہ چاہتے ہمیں مشکل نہ ہوں گے ہم

ساحل پہ جانے والے کبھی لوٹتے نہیں
دھوکے سے بھی کبھی کوئی ساحل نہ ہوں گے ہم

ہم کو ہے عشق اس سے جو ہے جونؔ ایلیا
یعنی کہ آپ کے کوئی قابل نہ ہوں گے ہم

ہم نے تو اپنے جسم میں اک دل کو مارا ہے
کیا پھر بھی سوچتے ہو کہ قاتل نہ ہوں گے ہم

مانا شراب پیتے ہیں تو کیا ہوا میاں
یعنی کہ آپ کہتے ہیں فاضل نہ ہوں گے ہم