تیری نگاہ ناز جو ناوک اثر نہ ہو
تکلیف چارہ سازئ زخم جگر نہ ہو
مجھ سے بھی کچھ سوا ہے انہیں میری آرزو
یہ شوق وہ نہیں جو ادھر ہو ادھر نہ ہو
میں اور مجھ کو وعدۂ دیدار کی امید
وہ چاہتا ہوں آج کہ جو عمر بھر نہ ہو
اے برق حسن یار ذرا چشم التفات
یوں جل بجھوں کہ مجھ کو بھی میری خبر نہ ہو
کعبہ میں ہے نشاں نہ کہیں دیر میں پتہ
تیری گلی میں مضطرؔ آشفتہ سر نہ ہو

غزل
تیری نگاہ ناز جو ناوک اثر نہ ہو
حکیم اسد علی خان مضطر