EN हिंदी
تیری نگاہ ناز جو ناوک اثر نہ ہو | شیح شیری
teri nigah-e-naz jo nawak-asar na ho

غزل

تیری نگاہ ناز جو ناوک اثر نہ ہو

حکیم اسد علی خان مضطر

;

تیری نگاہ ناز جو ناوک اثر نہ ہو
تکلیف چارہ سازئ‌ زخم جگر نہ ہو

مجھ سے بھی کچھ سوا ہے انہیں میری آرزو
یہ شوق وہ نہیں جو ادھر ہو ادھر نہ ہو

میں اور مجھ کو وعدۂ دیدار کی امید
وہ چاہتا ہوں آج کہ جو عمر بھر نہ ہو

اے برق حسن یار ذرا چشم التفات
یوں جل بجھوں کہ مجھ کو بھی میری خبر نہ ہو

کعبہ میں ہے نشاں نہ کہیں دیر میں پتہ
تیری گلی میں مضطرؔ آشفتہ سر نہ ہو