تیر نظروں میں تو ابرو میں کماں ڈھونڈتا ہوں
اس کی آنکھوں میں گئی رت کے نشاں ڈھونڈتا ہوں
نشۂ قرب سے بڑھ کر ہے تری کھوج مجھے
تو جہاں مل نہ سکے تجھ کو وہاں ڈھونڈتا ہوں
تازہ وارد ہوں میاں اور یہ شہر دل ہے
کچھ کمانے کو یہاں کار زیاں ڈھونڈتا ہوں
شک کی بے سمت مسافت ہی مجھے مار نہ دے
جو یقیں مجھ کو دلا دے وہ گماں ڈھونڈتا ہوں
اپنے اندر مجھے کربل کا سماں لگتا ہے
سر بلندی کے لیے نوک سناں ڈھونڈتا ہوں
عصر حاضر بھی لگے حرف مکرر جاذبؔ
اپنے ہونے کے لیے تازہ جہاں ڈھونڈتا ہوں

غزل
تیری نظروں میں تو ابرو میں کماں ڈھونڈتا ہوں
شکیل جاذب