EN हिंदी
تیری نظر کے سامنے یہ دل نہیں رہا | شیح شیری
teri nazar ke samne ye dil nahin raha

غزل

تیری نظر کے سامنے یہ دل نہیں رہا

شکیل شمسی

;

تیری نظر کے سامنے یہ دل نہیں رہا
آئینہ آئنہ کے مقابل نہیں رہا

اچھا ہوا کہ وقت سے پہلے بچھڑ گیا
بربادیوں میں تو مری شامل نہیں رہا

مجھ کو سمجھ رہا تھا جو ماضی کی اک کتاب
وہ بھی نئے نصاب میں شامل نہیں رہا

لوٹ آئیں پھر سے کشتیاں طوفاں سے ہار کر
ویراں بہت دنوں مرا ساحل نہیں رہا

منصف کی انگلیوں کے نشاں خنجروں پہ ہیں
اب کوئی اپنے شہر میں قاتل نہیں رہا

ہر اک قدم پہ رکھا ہے دل کا بہت خیال
اس کی طرف سے میں کبھی غافل نہیں رہا

رقصاں ہے چارہ گر کے اشاروں پہ آج کل
اب دل بھی اعتبار کے قابل نہیں رہا