تیری مہندی میں مرے خوں کی مہک آ جائے
پھر تو یہ شہر مری جان تلک آ جائے
بس پہ یہ سوچ کے چڑھتے ہوئے رہ جاتا ہوں
کیا خبر تیرے رویے میں لچک آ جائے
اونٹ اور ریت مری ذات کا حصہ تھے مگر
اب قدم گھر سے نکالوں تو سڑک آ جائے
گھر کی دیوار پہ کروا کے سفیدی پیلی
چاہتا ہوں مری آنکھوں میں چمک آ جائے
یہ بھی ممکن ہے مرا سایہ مرا ساتھ نہ دے
یہ بھی ممکن ہے مجھے تیری کمک آ جائے

غزل
تیری مہندی میں مرے خوں کی مہک آ جائے
راشد امین