تیری بھنووں کی تیغ کے جو روبرو ہوا
سب عاشقوں کی صف میں وو ہی سرخ رو ہوا
تجھ زلف کے خیال سیں کیوں کر نکل سکوں
ہر پیچ و خم نمونۂ طوق گلو ہوا
تیرے نگہ کا تیر ہے از بس کہ موشگاف
ممنوں ہر ایک زخم سیں میں ہو بہ ہو ہوا
رشتے سیں موج گل کی ہوائے بہار میں
سب بلبلوں کا چاک گریباں رفو ہوا
سورج کا رنگ چاند سری کا ہوا سفید
جس صبح کوں سوار وو خورشید رو ہوا
جس کی زباں میں عشق کے افسوں کا ہے اثر
ہر حرف اس کا موج پری ہو بہ ہو ہوا
برجا ہے گر کہوں میں اسے شیشہ آتشی
چشم سراجؔ آئینۂ شعلہ رو ہوا
غزل
تیری بھنووں کی تیغ کے جو روبرو ہوا
سراج اورنگ آبادی