تیری باتوں کا رس اداسی ہے
میرے دامن میں بس اداسی ہے
دوسرا جسم ہے یہ مٹی کا
میرا پہلا قفس اداسی ہے
دھڑکنیں کارواں خرابوں کا
ان کی ہر اک جرس اداسی ہے
مضمحل ہوں بڑے دنوں سے میں
مجھ کو بانہوں میں کس اداسی ہے
ابن آدم کے غم بتاتے ہیں
کیسی کہنہ نفس اداسی ہے
کیا دکھاتا کسی مسیحا کو
میں تو سمجھا تھا بس اداسی ہے
دن خوشی کے نکال کر دیکھے
عمر کا ہر برس اداسی ہے
دل کا اخترؔ مزار سینے میں
غم ہے گنبد کلس اداسی ہے
غزل
تیری باتوں کا رس اداسی ہے
جنید اختر