EN हिंदी
تیری آنکھوں سے ملی جنبش مری تحریر کو | شیح شیری
teri aankhon se mili jumbish meri tahrir ko

غزل

تیری آنکھوں سے ملی جنبش مری تحریر کو

یوگیندر بہل تشنہ

;

تیری آنکھوں سے ملی جنبش مری تحریر کو
کر دیا میں نے مکمل خواب کی تعبیر کو

جب محبت کی کہانی لب پہ آتی ہے کبھی
وہ برا کہتے ہیں مجھ کو اور میں تقدیر کو

اف رے یہ شور سلاسل نیند سب کی اڑ گئی
دو رہائی آ کے تم پا بستۂ زنجیر کو

یہ عرق آلودہ پیشانی یہ رنج و اضطراب
دیکھ جا آ کر شکست عشق کی تصویر کو

زندگی یوں ان کے قدموں پر نچھاور میں نے کی
جیسے پروانہ جلا دے نور پر تقدیر کو

اے مرے معصوم قاتل اتنی مہلت دے مجھے
چوم لوں آنکھوں سے اپنی برہنہ شمشیر کو

جس نے چاہت کے تجسس میں گنوا دی زندگی
وہ کہاں توڑے گا تشنہؔ ظلم کی زنجیر کو