تیرے نالوں سے کوئی بدنام ہوتا جائے گا
تو بھی اے دل مورد الزام ہوتا جائے گا
مطمئن ہوں میں کہ ہو جائے گا سامان سکوں
درد بڑھتا جائے گا آرام ہوتا جائے گا
وجہ ناکامی نہ ہوں اے دل تری بے صبریاں
صبر سے لے کام خود ہر کام ہوتا جائے گا
چھوڑ دے اے دل تمنا زندگی کی چھوڑ دے
تو ہلاک گردش ایام ہوتا جائے گا
ہم تہی دستان قسمت مر گئے پیاسے تو کیا
میکدے میں یوں ہی دور جام ہوتا جائے گا
التفات ناز جو مخصوص تھا میرے لیے
کیا خبر تھی رفتہ رفتہ عام ہوتا جائے گا
عیب ہے شاکرؔ ہر اک کے سامنے عرض ہنر
نام کی خواہش میں تو بدنام ہوتا جائے گا
غزل
تیرے نالوں سے کوئی بدنام ہوتا جائے گا
شاکر کلکتوی