تیرے ہونٹوں پہ سجا ہے کیا ہے
تیرا ہر رنگ دعا ہے کیا ہے
تیرے آنگن میں لٹا ہے کیا ہے
وہ بھی بارش میں کھلا ہے کیا ہے
رنگ چڑھتے ہیں اتر جاتے ہیں
موسم ہجر پتہ ہے کیا ہے
لوگ الفاظ بدل لیتے ہیں
اور چہروں پہ لکھا ہے کیا ہے
اپنی برباد نگاہی کے ستم
ایک در اور کھلا ہے کیا ہے
میرے ہاتھوں کی لکیروں پہ نہ جا
تو نے خود ہی تو لکھا ہے کیا ہے
خود سے ملتا ہوں بچھڑ جاتا ہوں
خواب زنجیر ہوا ہے کیا ہے
ندیاں خشک ہوئی جاتی ہیں
کوئی اس پار کھڑا ہے کیا ہے
میری آنکھوں سے قیامت برسے
جو بھی کچھ تو نے دیا ہے کیا ہے
اپنے وقتوں کی زباں بولتا ہوں
پھر یہ بازار لگا ہے کیا ہے
میری بستی میں اداسی کیسی
شہر کی سمت چلا ہے کیا ہے
کتنی خوش پوش فضا ہے خورشیدؔ
تیری آنکھوں کا نشہ ہے کیا ہے
غزل
تیرے ہونٹوں پہ سجا ہے کیا ہے
اعظم خورشید