تیرا یہ حسن بے کراں مقید زمان ہے
مگر تجھے اے زندگی کہاں کوئی گمان ہے
نشان کھو گیا میں اپنے آپ اپنے آپ کا
جہاں کوئی ہو بے نشاں وہیں میرا نشان ہے
نہ دیکھ اے اس اس تراش تیر کو
ذرا یہ دیکھ آ کہ کس کے ہاتھ میں کمان ہے
یہ دعوت جہاد بے محل نہیں ہے اے زمیں
کسی فقیر بے ہنر کا آخری بیان ہے
میں رہروئے صراط راہزن تھا تھوڑی دیر کو
سمجھ رہا تھا میں میری نہ آنکھ ہے نہ کان ہے
میری نوائے امن بے نوا نہیں ہے اے فلک
ابھی بھی جسم ناتواں میں بولنے کی جان ہے
صفوں میں سامعین کے جو تو بھی آ گیا تو سن
تیری بساط جستجو کا آج امتحان ہے
غزل
تیرا یہ حسن بے کراں مقید زمان ہے
سید تمجید حیدر تمجید