تیرا کیا جاتا جو ملتا جام ریحانی مجھے
مے کے بدلے ساقیا تو نے دیا پانی مجھے
مے گساری میں وہ اب پہلی سی کیفیت نہیں
دے دیا ساقی نے کیا بے کیف سا پانی مجھے
اب کسی مشروب سے دل چین پا سکتا نہیں
کاش وہ آ کر پلا دے تیغ کا پانی مجھے
وہ تپ غم ہے کہ سوکھے ہیں لب و کام و دہن
کاش آ کر وہ پلائیں دید کا پانی مجھے
پی رہا ہوں شوق سے اے رازؔ جس کو آج تک
ایک دن آخر ڈبو دے گا وہی پانی مجھے
غزل
تیرا کیا جاتا جو ملتا جام ریحانی مجھے
دھنپت رائے تھاپر راز