تیرا بھلا ہو تو جو سمجھتا ہے مجھ کو غیر
آنکھوں پہ آنکھیں رکھ تو کہ کر لوں میں اپنی سیر
خود پر ہمارے جسم کی چادر ہی ڈال لے
بچ آپ اپنی دھوپ سے تیرے بدن کی خیر
کعبے کے سارے بت مرے سینے میں آ بسے
اس عاشقی میں سارا حرم ہو گیا ہے دیر
جینا ترے بغیر نہیں آ سکا ابھی
مرنا تو میں نے سیکھ لیا ہے ترے بغیر
تب داخلہ ملے گا تجھے دشت حسن میں
جب اہل شہر کہنے لگیں تجھ کو غیر غیر
احساسؔ جی کے حلقہ غربت میں آ رہو
کرنی اگر ہو اپنے حقیقی وطن کی سیر
غزل
تیرا بھلا ہو تو جو سمجھتا ہے مجھ کو غیر
فرحت احساس