تیرا افسانا چھیڑ کر کوئی
آج جاگے گا رات بھر کوئی
ایسے وہ دل کو توڑ دیتا ہے
دل نہ ہو جیسے ہو ثمر کوئی
رات ہوتے ہی میرے پہلو میں
ٹوٹ کر جاتا ہے بکھر کوئی
چند لمحوں میں توڑ سب رشتے
دے گیا درد عمر بھر کوئی
عشق کرتا نہیں ہوں میں تم سے
کہہ کے پچھتایا عمر بھر کوئی
میں وفا کر کے با وفا ٹھہرا
بے وفا ہو گیا مگر کوئی
کاٹ کر پیٹ جوڑے گا پیسے
تب خریدے گا ایک گھر کوئی
تیرے آنے کی آس میں عنبرؔ
دیکھتا ہوگا رہ گزر کوئی
غزل
تیرا افسانا چھیڑ کر کوئی
ابھیشیک کمار امبر