EN हिंदी
تیغ کھینچے ہوئے کھڑا کیا ہے | شیح شیری
tegh khinche hue khaDa kya hai

غزل

تیغ کھینچے ہوئے کھڑا کیا ہے

سلمان اختر

;

تیغ کھینچے ہوئے کھڑا کیا ہے
پوچھ مجھ سے مری سزا کیا ہے

زندگی اس قدر کٹھن کیوں ہے
آدمی کی بھلا خطا کیا ہے

جسم تو بھی ہے جسم میں بھی ہوں
روح اک وہم کے سوا کیا ہے

آج بھی کل کا منتظر ہوں میں
آج کے روز میں نیا کیا ہے

آئیے بیٹھ کر شراب پئیں
گو کہ اس کا بھی فائدہ کیا ہے