EN हिंदी
تیغ نگہ دیدۂ خوں خار نکالی | شیح شیری
tegh-e-nigah-e-dida-e-KHun-Khaar nikali

غزل

تیغ نگہ دیدۂ خوں خار نکالی

مردان علی خاں رانا

;

تیغ نگہ دیدۂ خوں خار نکالی
کیوں آپ نے عشاق پہ تلوار نکالی

بھولے ہیں غزالان حرم راہ خطا سے
تم نے عجب انداز کی رفتار نکالی

دھڑکا مرے نالہ کا رہا مرغ سحر کو
آواز شب وصل نہ زنہار نکالی

ہر گھر میں کہے رکھتے ہیں کہرام پڑے گا
گر لاش ہماری سر بازار نکالی

آخر مری تربت سے اگی ہے گل نرگس
کیا باد فنا حسرت دیدار نکالی

میں وصل کا سائل ہوں نہ وعدے کا طلبگار
باتوں میں عبث آپ نے تکرار نکالی

جل جائے گا یہ خرمن ہستی ابھی اے دل
سینے سے اگر آہ شرربار نکالی

دل لے کے بھی رعناؔ کا کیا پاس نہ افسوس
کچھ حسرت دل تو نے نہ عیار نکالی