تزئین بزم غم کے لیے کوئی شے تو ہو
روشن چراغ دل نہ سہی جام مے تو ہو
ہم تو رہین رشتۂ بے گانگی رہے
سارے جہاں سے تیری ملاقات ہے تو ہو
غم بھی مجھے قبول ہے لیکن بہ قدر شوق
دل کا نصیب درد سہی پے بہ پے تو ہو
فریاد ایک شور ہے آہنگ کے بغیر
نالہ متاع درد سہی کوئی لے تو ہو
یہ کیا کہ اہل شوق نہ اپنے نہ آپ کے
یا موت یا حیات کوئی بات طے تو ہو
ہے دور حسن سلسلۂ زیر و بم کی بات
پہلے گداز سینہ سزاوار نے تو ہو
ہر چند دو قدم ہی سہی منزل مراد
یہ مختصر سی راہ مگر ہوشؔ طے تو ہو
غزل
تزئین بزم غم کے لیے کوئی شے تو ہو
ہوش ترمذی