توجہ ان کی کیا کم ہو گئی ہے
بلائے جاں شب غم ہو گئی ہے
خرد کا نور کیا پھیلا جہاں میں
دلوں کی روشنی کم ہو گئی ہے
رہی ہوگی کبھی جنت یہ دنیا
مگر اب تو جہنم ہو گئی ہے
ایٹم زادوں یہ معراج ترقی
حریف ابن آدم ہو گئی ہے
شکست خواب تنظیم گلستاں
دلیل عزم محکم ہو گئی ہے
خذف کا مول جب سے بڑھ گیا ہے
صدف کی آبرو کم ہو گئی ہے
کبھی وقف طرب تھی زندگانی
مگر اب صرف ماتم ہو گئی ہے

غزل
توجہ ان کی کیا کم ہو گئی ہے
جلیل شیر کوٹی