EN हिंदी
طور بے طور ہوئے جاتے ہیں | شیح شیری
taur be-taur hue jate hain

غزل

طور بے طور ہوئے جاتے ہیں

حبیب اشعر دہلوی

;

طور بے طور ہوئے جاتے ہیں
اب وہ کچھ اور ہوئے جاتے ہیں

چھلکی پڑتی ہے نگاہ ساقی
دور پر دور ہوئے جاتے ہیں

تو نہ گھبرا کہ ترے دیوانے
خوگر جور ہوئے جاتے ہیں

عشق کے مسئلہ‌ ہائے سادہ
قابل غور ہوئے جاتے ہیں