طور بے طور ہوئے جاتے ہیں
اب وہ کچھ اور ہوئے جاتے ہیں
چھلکی پڑتی ہے نگاہ ساقی
دور پر دور ہوئے جاتے ہیں
تو نہ گھبرا کہ ترے دیوانے
خوگر جور ہوئے جاتے ہیں
عشق کے مسئلہ ہائے سادہ
قابل غور ہوئے جاتے ہیں
غزل
طور بے طور ہوئے جاتے ہیں
حبیب اشعر دہلوی