طوف حرم نہ دیر کی گہرائیوں میں ہے
جو لطف ان کے در کی جبیں سائیوں میں ہے
حیرت نگاہ شوق کی پسپائیوں میں ہے
جلوہ بذات خود ہی تماشائیوں میں ہے
ظاہر یہ کر رہی ہیں شب غم کی نزہتیں
کوئی چھپا ہوا مری تنہائیوں میں ہے
دنیائے رنگ و بو سے گزر کر پتہ چلا
پوشیدہ کوئی روح کی گہرائیوں میں ہے
پاتا ہوں ان کو ہر نفس اضطراب میں
موج سکوں بھی دور کی انگڑائیوں میں ہے
میرا جنون شوق ہی کیوں ہو قصوروار
شامل تری نگاہ بھی رسوائیوں میں ہے
اے شمع پر غرور ذرا غور سے تو دیکھ
یہ کس کی روشنی تری پرچھائیوں میں ہے
اس کے لیے شکیلؔ خزاں کیا بہار کیا
ڈوبا ہوا جو حسن کی رعنائیوں میں ہے
غزل
طوف حرم نہ دیر کی گہرائیوں میں ہے
شکیل بدایونی