تصویر اضطراب سراپا بنا ہوا
پھرتا ہوں شہر شہر انہیں ڈھونڈھتا ہوا
اک درد اور وہ بھی کسی کا دیا ہوا
اتنا بڑھا کہ آپ ہی اپنی دوا ہوا
مل کر بچھڑ گیا تھا کوئی جس مقام پر
اب تک اسی مقام پہ ہوں چپ کھڑا ہوا
جیسے اسے خبر تھی مرے حال زار کی
گزرا وہ اس ادا سے مجھے دیکھتا ہوا
جن حادثات دہر سے بچ کر چلا تھا میں
ہر گام پر انہیں کا مجھے سامنا ہوا
یوں بے دلی کے ساتھ سنا ہم نے کاظمیؔ
جیسے تھا کچھ فسانۂ ہستی سنا ہوا
غزل
تصویر اضطراب سراپا بنا ہوا
شفقت کاظمی