تسکین دے سکیں گے نہ جام و سبو مجھے
بے چین کر رہی ہے تری آرزو مجھے
مجھ سے تلاش راہ کی دشواریاں نہ پوچھ
بھٹکا رہا ہے ذوق سفر چار سو مجھے
بزم اثر فریب کی تبدیلیاں تو دیکھ
مغموم آ رہے ہیں نظر خوب رو مجھے
تیری نظر نہ جان سکی میرے دل کا حال
کیا مطمئن کرے گی تری گفتگو مجھے
اے نقشؔ اضطراب دل و جاں کو کیا کروں
برباد کر رہا ہے غم آرزو مجھے
غزل
تسکین دے سکیں گے نہ جام و سبو مجھے
مہیش چندر نقش