تسبیح سے غرض ہے نہ زنار سے غرض
دل کو فقط ہے یار کے دیدار سے غرض
اسلام و کفر سے تو یہاں کچھ نہیں حصول
ہم کو نہیں ہے کافر و دیں دار سے غرض
خلد بریں سے کام نہ توبہ کی چھاؤں سے
ہم کو ہے تیرے سایۂ دیوار سے غرض
آیا ہوں سیر کو ترے دیدار کے لئے
زاہد سے کچھ غرض ہے نہ مے خوار سے غرض
مسکیںؔ سنو گے تم کہ تہ دام مر گیا
رکھتا تھا دل جو مرغ گرفتار سے غرض

غزل
تسبیح سے غرض ہے نہ زنار سے غرض
مسکین شاہ