تسبیح قمری سرو صنوبر سمیٹ لو
جانا ہے اس دیار سے منظر سمیٹ لو
پرواز کامیابی کی بس اتنی شرط ہے
چاہت حصار نفس کے اندر سمیٹ لو
اس اشک کی تڑپ کے مقابل میں کچھ نہیں
اب چاہے چشم نم میں سمندر سمیٹ لو
طاقت پہ پہلے اپنی تو راضی خدا کرو
پھر بازوؤں میں تم در خیبر سمیٹ لو
میرا مکاں نہیں ہے خطا بیں کے واسطے
آؤ مگر مزاج کو باہر سمیٹ لو
اظہرؔ یہ دور عیش ہے یاں جینے کے لیے
آزردہ ذہن اور دل مضطر سمیٹ لو
غزل
تسبیح قمری سرو صنوبر سمیٹ لو
اظہر ہاشمی