تصورات کی دنیا سجائے بیٹھے ہیں
کسی کی آس کو دل سے لگائے بیٹھے ہیں
فریب عمر دو روزہ کا کھائے بیٹھے ہیں
بتائیں کیا کہ جو صدمہ اٹھائے بیٹھے ہیں
نہ جانے کس گھڑی آ جائیں ڈھونڈتے ہم کو
چراغ دن میں بھی در پر جلائے بیٹھے ہیں
سنا ہے جب سے دعائیں قبول ہوتی ہیں
دعا کو ہاتھ ہم اپنے اٹھائے بیٹھے ہیں
وہ آ رہے ہیں کوئی کہہ رہا ہے کانوں میں
چراغ دید کا ہم تو بجھائے بیٹھے ہیں
غریب خانے کی ساری فضا معطر ہے
یہ لگ رہا ہے وہ آئے ہیں آئے بیٹھے ہیں
نہ پوچھ کیسے شب انتظار گزری ہے
نہ چھیڑ ہم کو صبا ہم ستائے بیٹھے ہیں
خبر کہاں ہے زمانے کی سوزؔ ہم اس کو
کسی کے عشق میں خود کو بھلائے بیٹھے ہیں

غزل
تصورات کی دنیا سجائے بیٹھے ہیں
سردار سوز