EN हिंदी
تصور پیار کا جو ہے پرانا کرنے والا ہوں | شیح شیری
tasawwur pyar ka jo hai purana karne wala hun

غزل

تصور پیار کا جو ہے پرانا کرنے والا ہوں

آیوش چراغ

;

تصور پیار کا جو ہے پرانا کرنے والا ہوں
میں اپنی آپ بیتی کو فسانہ کرنے والا ہوں

جہاں پہ صرف وہ تھی اور میں تھا اور خوشبو تھی
اسی جھرمٹ کو اپنا آشیانہ کرنے والا ہوں

جسے میں چاہتا ہوں وہ کہیں کی شاہزادی ہے
سو اس کے واسطے خود کو شہانہ کرنے والا ہوں

اداسی دیکھ آئی ہے مکاں شہر محبت میں
جہاں میں شام کو جا کر بیانہ کرنے والا ہوں

مجھے معلوم ہے وہ کیا شکایت کرنے والی ہے
اسے معلوم ہے میں کیا بہانہ کرنے والا ہوں

تری آنکھوں تری زلفوں ترے ہونٹھوں سے وابستہ
کئی ارمان ہیں جن کو سیانا کرنے والا ہوں

اسے جو عقل مندی کی بڑی باتیں بتاتے ہیں
انہیں لوگوں کو اب اپنا دوانہ کرنے والا ہوں

چراغؔ اب کون سی مجبوریاں ہیں جو اندھیرا ہے
تمہیں کہتے تھے کہ روشن زمانہ کرنے والا ہوں