EN हिंदी
تصور منکشف از بام ہو جانے سے ڈرتا ہوں | شیح شیری
tasawwur munkashif-az-baam ho jaane se Darta hun

غزل

تصور منکشف از بام ہو جانے سے ڈرتا ہوں

علی مزمل

;

تصور منکشف از بام ہو جانے سے ڈرتا ہوں
عطائے کشف کے اتمام ہو جانے سے ڈرتا ہوں

زمین و عرش کے باہم تعلق کے تناظر میں
زمین و عرش کا ادغام ہو جانے سے ڈرتا ہوں

کبھی سب کر گزرنے کا جنوں بے چین رکھتا ہے
کبھی یوں بھی ہوا سب کام ہو جانے سے ڈرتا ہوں

محبت ارتباط قلب سے مشروط ہوتی ہے
یقین و ربط کے ابہام ہو جانے سے ڈرتا ہوں

کہاں مجھ کو میسر مصر کا بازار آئے گا
خود اپنی ذات میں نیلام ہو جانے سے ڈرتا ہوں

علیؔ بحر محبت کا شناور ہوں خدا شاہد
وفا کے نام پہ الزام ہو جانے سے ڈرتا ہوں