تصور میں جمال روئے تاباں لے کے چلتا ہوں
اندھیری راہ میں شمع فروزاں لے کے چلتا ہوں
شکستہ دل ہجوم یاس و حرماں لے کے چلتا ہوں
حضور حسن میں یہ ساز و ساماں لے کے چلتا ہوں
انہیں شاید یقیں آ جائے اب میری محبت کا
میں ان کے روبرو چاک گریباں لے کے چلتا ہوں
تمہاری یاد ہر اک گام پر مجھ کو رلاتی ہے
اگر دل میں کبھی جینے کا ارماں لے کے چلتا ہوں
ٹپکتا ہے لہو احساس کے رنگیں دریچوں سے
میں اپنے دل میں جب یاد شہیداں لے کے چلتا ہوں
اسے شاید مری معصومیت پر رحم آ جائے
خدا کے سامنے میں فرد عصیاں لے کے چلتا ہوں
مجھے بھی اپنے احساس وفا کو آزمانا ہے
بزعم عشق افکار پریشاں لے کے چلتا ہوں
مری خوددار فطرتؔ کی خدا ہی آبرو رکھے
خزاں کے دور میں عزم بہاراں لے کے چلتا ہوں
غزل
تصور میں جمال روئے تاباں لے کے چلتا ہوں
فطرت انصاری