تسلسل پائمالی کا ملے گا
سریر آرا خزاں ہے کیا ملے گا
چلو دشمن کو سینے سے لگا لیں
کہاں اس شہر میں اپنا ملے گا
خرابہ ہے کہ دشت نینوا ہے
کوئی زخمی کوئی پیاسا ملے گا
مرے لشکر کی مٹی دوسری ہے
صف اعدا میں وہ بھی جا ملے گا
نہیں بے وجہ اس گرداب میں ہوں
کنار آب بھی دریا ملے گا
نہیں بے سود ناز غم اٹھانا
حساب درد ہے دونا ملے گا
امینؔ اشرف کی ہے پہچان یہ بھی
بھری محفل میں وہ تنہا ملے گا

غزل
تسلسل پائمالی کا ملے گا
سید امین اشرف