تروار کھینچ ہم کو دکھاتے ہو جب نہ تب
کیا مر رہے جواں کو ستاتے ہو جب نہ تب
تقصیر ہم سے کون سی ایسی ہوئی وقوع
منہ پر جو ہاتھ میرے دھراتے ہو جب نہ تب
از بس مزاج ہم سے تمہارا کشیدہ ہے
آزردہ بات میں ہوئے جاتے ہو جب نہ تب
اب تو رکھا ہے کاٹ ہمارا یہ آپ نے
غیروں سے مل پتنگ اڑاتے ہو جب نہ تب
اک بات کا ہماری بتنگڑ بناتے ہو
سو جھوٹ سچ کو اپنے چھپاتے ہو جب نہ تب
اے واعظو یہ کیا تمہیں بکواس لگ گئی
میری سنو تم اپنی ہی گاتے ہو جب نہ تب
ہم درد دل کہیں تو جواب اس مزے سے دو
قصہ محبؔ یہ کس کو سناتے ہو جب نہ تب
غزل
تروار کھینچ ہم کو دکھاتے ہو جب نہ تب
ولی اللہ محب